ABSTRACT: Dower is a sum of money or property which the wife is entitled to receive
from husband in consideration of marriage. It is regarded as a financial right of wife and
is a payable debt on husband. Quran, Sunnah and The Islamic Jurisprudence have
explained the concept of dower in detail.In this article the definition of dower, its various
kinds and its legal status have been discussed in light of the Islamic sources.
تعالی کے اس ارشاد کی بناء پر کہ جب شعیب علیہ السالم ٰ ’’مہر پچھلی شریعتوں میں اولیاء کاحق ہوتاتھا ہللا
موسی علیہ السالم سے فرمایا :میں ان دوبیٹیوں میں سے ایک کی نکاح تمہارے ساتھ کرانا چاہتا ہوں
ٰ نے
اس شرط پر کہ آپ میرے لئے آٹھ سال تک مزدوری کریں گے ۔لیکن پھر یہ حکم منسوخ ہوگیا اور مہر
عورت کے لئے عطیہ بن گیا۔‘‘
بغیر درست ہے ۔
ق .یعنی مستحب یہ ہے کہ نکاح مہر کے liii
صدَا ِحنابلہ کا نقطۂ نظرَ :ویَ ْست َِحبُّ ا َ ْن َِل یُ ْع َری النِِّکَا ُح َع ْن تَس ِْمیَ ِۃ ال َّ
ذکر سے خالی نہ ہو۔
اہل الظواہر کا نقطۂ نظر :اس مکتبۂ فکر کے ہاں بھی نکاح بھی درست ہے البتہ مہر کے نفی کی شرط کی
صال.livکہ شرط کے ساتھ نکاح اصال ص ُّح ال ِنِّکَا ُح َعلَی ش َْر ِط ا َ ْ صورت میں فسخ نکاح کا حکم لگاتے ہیں ۔ َو َِل یَ ِ
ہی درست نہیں۔
البتہ بوقت نکاح اس کا تذکرہ مسنون ہے کہ آپ علیہ السالم ہر نکاح میں مہر کا تعین فرماتے تھے نیز اس
کا ذکر خیر کا سبب اور تنازع سے بچنے کا باعث ہے۔
مہر کی مقدار
مہر کی زیادہ سے زیادہ مقدار کی کوئی حد شریعت میں مقرر نہیں ۔قرآن مجید میں ہے:
lv
طارافَ َال تَا ْ ُخذُ ْو ِام ْن ُہ َ
شیأ َوا ِْن ٰات َ ْیت ُ ْم اِحْ دَا ُھ َّن قِ ْن َ
اور اگر تم نے اپنی بیویوں میں سے ایک کو بہت سا مال دیا ہو تو بھی اس میں سے کچھ نہ لو۔
امام راغب اصفہانی ؒ فرماتے ہیں:
کط َرۃِ َو ٰذ ِل َ
ُور ْال َحیاۃِ ت َ ْشبِیھابِالقَ ْن َ
عب ُ قنطاراور قنطرہ کی جمع قناطیرآتی ہے اور قنطرہ پل کو کہتے ہیں َما فِی ِہ ُ
َغی ُْر َمحْ د ُْودِالقَد ِْر فِی نَ ْف ِس ِہ.lviجس پرزندگی کا گذران موقوف ہوتاہے اور یہ اپنی مقدار میں غیر محدود ہوتا ہے
۔اس سے ثابت ہوا کہ مہر کی کوئی انتہائی حد مقرر نہیں ۔
فاروق lviiنے مہر میں حد درجہ مبالغہ کے رجحان کو کم کرنے کے لئے اس کی تحدید کرنی ؓ سیدنا عمر
چاہی اور برسر منبر اعالن فرما یا:تم عورتوں کے مہر میں غلو سے کام نہ لو کیوں کہ اگر یہ کوئی بہتر
چیز ہوتا تو رسول ہللا سب سے زیادہ مقرر فرماتے حال آنکہ آپ نے اپنی بیویوں اور بیٹیوں کے لئے بارہ
اوقیہ چاندی سے زیادہ مہر مقرر نہیں کیا جو چارسو درہم بنتی ہے جو کوئی اس سے زیادہ مقرر کرے گا
عمر !آپ کا فیصلہ درست نہیں وہ بیت المال میں جمع ہوگا۔اس پر ایک قریشی عورت نے تنبیہ کی کہ اے ؓ
عمر
تعالی نے اس کے کوئی حد مقررنہیں کی اور دلیل میں اوپر والی آیت پیش کی جس پر سیدنا ؓ ٰ ہے کہ ہللا
نے فرمایا:
آپ دوبارہ منبر پر چڑھ طأ’’.عورت حق تک پہنچ گئی اورمرد کوخطا ہوگئی۔‘‘ ؓ ت َو َر ُج ٌل ا َ ْخ َ ا ِٗ ْم َر َء ۃٌا َ َ
صابَ ْ
گئے اور حکم واپس لے لیا lviii۔
لیکن اس کے باوجود مہر میں تخفیف مستحسن اور موجب خیر وبرکت ہے ۔
س ُرہ‘’’.lixکہ مہر میں بہتر اس کا آسان [کم ]ہونا ہے۔‘‘ ارشاد نبوی ہے َ :خی ُْر النکاحِ ا َ ْی َ
مہر کو کم مقرر کرنے فوائد
۔ :نوجوان مردجو مہر اورشادی کے اخراجات نہ پورے کرنے کے سبب غیر شادی شدہ رہتے ہیں ،کے
لئے نکاح کرنا آسان ہوجاتا ہے ۔
۔ :انفرادی اور اجتماعی مفاسد کا سد باب ہوگا اور بے راہ روی کی روک تھام ہوگی۔
۔ :نمود ونما ئش کی جگہ سادگی کو فروغ ملے گا ۔
مہر کی کم سے کم مقدار
مہر کی کم سے کم حد میں فقہاء کا اختالف ہے۔
احناف کے نزدیک اس کی مقدار دس درہم یا ایک دینارہے ۔ان کی دلیل وہ روایت ہے جس کو سنن بیہقی
اور سنن دارقطنی میں ان الفاظ سے نقل کیا گیا ہے ِ:لَ َم ْہ َر اَقَ َّل ِم ْن َعش ََرۃِ دَ َراھ َم.lxمہر دس درہم سے کم نہیں
ہوگا۔دوسرے وہ قیاس کرتے ہیں مہر کو سرقہ کے نصاب پر جودس درہم ہے.جن احادیث میں دس درہم
س َولَ ْوخَات َما ِم ْن َح ِدیْد’’.lxiیعنی ڈھونڈلو اگر چہ لوہے کی انگوٹھی کیوں نہ سے کم کا ذکر ہے مثالا ِٗ ْلت َِم ْ
ہوں۔‘‘وہ محمول گردانتے ہیں مہر معجل پر کہ عربوں کی عادت ہوتی تھی کہ مہر کا کچھ حصہ تعجیال
عورت کودیا کرتے تھے ۔
فقہ مالکی کے فقہا ء کے نزدیک اس کی مقدار دینار کا چوتھائی یا تین چاندی کے خالص درہم ہیں ۔
lxii
شوافع اور حنبلی مکتبۂ فکر کے نزدیک مہر کی کم سے کم مقدار کی حد نہیں ہے۔ان کے ہاں کسی مقدار پر
اس کو محدد کرنا درست نہیں ۔مال کے قلیل یا کثیر ہونے کی کوئی قید نہیں بلکہ جانبین جس مقدار پر
راضی ہو جائیں وہی درست ہے ۔وہ عقد نکاح کو عقد بیع پر قیاس کرتے ہیں ۔نکاح اور بیع کے مابین علت
[عقد کا اشتراک ]ہے۔ جو چیز عقد بیع میں قیمت اور ثمن کی صالحیت رکھتی ہے وہی چیز عقد نکاح میں
تمول [جس کو مال مہر مقرر ہوسکتی ہے ۔اس کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ یہ مقدار اتنی کم نہ ہو جو حد ِّ
کہا جائے ]سے کم ہوlxiii۔
ان کا دوسرا استدِلل قرآن مجید کا یہ بیان ہے (:ا َ ْن ت َ ْبتَغُ ْوابِا َ ْم َوا ِل ُکم(’’lxivیہ کہ تم ان کو اپنے مالوں کے
ذریعے نکاح میں ِلنا چاہو۔‘‘اس آیت میں مطلق مال کا ذکر ہے جو نکاح کے بدلے میں دیا جا تا ہے اور
ِط َالقہٗ’’.lxvیعنی جو حکم مطلق ہو وہ اپنے اطالق پر محمول ہوگا۔‘‘لہٰ ذا طلَ ُق یَجْ ِري َعلَی ا ْ قاعدہ یہ ہے ’:اَل ُم ْ
یہاں بھی مطلق مال مذکور ہے جو قلیل وکثیر کی قید سے خالی ہے۔
فقہائے ظاہریہ کے نزدیک بھی اس کی کوئی حد مقرر نہیں ہے ان کے ہاں جس چیز پر ہبہ یا میراث میں
تملیک آتی ہو یا جس شے کی تنصیف ہوتی ہو خواہ تھوڑی ہو یا زیادہ مہر بننے کی صالحیت رکھتی ہے
۔البتہ وہ نکاح کو بیع پر قیاس کرنے کو درست نہیں مانتےlxvi۔
مہر کی مسنون مقدار
مناسب یہی ہے کہ جانبین مہر کے معاملہ میں میانہ روی سے کام لیں نہ اتنی زیادہ مقرر ہو کہ مردساری
عمر اس کی ادائیگی سے قاصر رہے ۔نہ اتنی کمی کی جائے کہ اس کی کوئی وقعت ہی نہ ہو ۔
اولی ہے جس کی مقدار ۵۰۰درہم ہے جو موجودہ مہر کے تقرر میں رسول ہللا ﷺکی اتباع مستحب اور ٰ
حساب سے ۱۴۸۷گرام بنتا ہے ۔
مہر کی تعجیل اور تأجیل
مہر معجل:معجل تعجیل سے ہے جس کا معنی ہے علی الفور ۔یہ مہر کی وہ قسم ہے جس کی ادائیگی دست
بدست اور مجلس عقد میں ضروری ہو یا جو عورت کی طلب پر موقوف ہواور جب بھی عورت مطالبہ
کرے خاوند اس کو دینے کا پابند ہو۔
فتاوی بزازیہ میں ہے: ٰ
ا َِّن ْال ُمعَ َّج َل اِذا ذ ِک َر فِي العَق ِد َملکَت طلبُہ‘ ’’.جب عقد میں مہر معجل کا ذکر آجائے تو اس وقت سے
ْ َ َ lxvii َ ْ ْ ُ َ
عورت کو مطالبہ کا حق رہتا ہے۔
مہر مؤجل:مؤجل تأجیل سے اور اس کا معنی ہے مدت مقرر کرنا ۔یہ مہر کی وہ قسم ہے جس میں ادائیگی
کے لئے کوئی میعاد یا مدت مقرر کی جائے ۔اس مدت مقررہ سے پہلے عورت کو مطالبہ کا حق نہیں اور
مرد پر ادائیگی ِلزمی نہیں ۔اس میعاد کی تعین سال ،دوسال ،طالق یا موت تک ہوسکتی ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے: ٰ
lxviii
ص ِح ْی ٌح
سنَ ٍۃ َ َ
ش ْہ ٍرا ْو َ ُ ٰ ْ
َأج ْی َل ال َم ْہ ِر اِلی غَایَ ٍۃ َم ْعل ْو َم ٍۃنَح َْو َ َّ َ
ف ِِل َح ٍدان ت ِ َ ِلَ ِخ َال َ
اس میں کسی کا خالف نہیں کہ مہر میں مدت ،ایک معلوم انتہاء مثالایک مہینہ یا ایک سال تک مقرر کرنا
درست ہے۔
یہ ضروری ہے کہ:
تأجیل فاحش نہ ہوں ،مثال مالداری کے وقت تک مدت مقرر ہو تو یہ درست نہیں۔
تاریخ اور مدت مجہول نہ ہوں۔اس طرح کہ مؤجل کہہ دیا جائے اور اجل کی تعین نہ ہوجائے ۔
ان دونوں صورتوں میں مہر معجل ہی واجب ہوتا ہے جیسا کہ درمختا ر کی عبارت ہے :
lxix
ب َحاِل احشَۃفَیَ ِج ُ اِذَا ُج ِہ َل ْاِلَ َج ُل ِج َہالَۃ فَ ِ
’’جب مدت بالکل غیر متعین ہو تو پھر معجل ہی واجب ہوتا ہے۔‘‘
ایک شبہ کا ازالہ
موت اور طالق میں بھی جہالت اجل ہے تو مہر کی ادائیگی موت یا طالق سے مشروط کرنے میں تأجیل
کیسے درست مانا جاتا ہے ؟
فتاوی ہندیہ میں ان الفاظ کے ساتھ دیاگیا ہے: ٰ اس کا جواب
عرفابِالَ
ص ُّح ِِلَ نَّہ‘ثابِتٌ ُ
ص ِحی ُح اَنَّہ‘ یَ ِص ُّح ِل َج َھالَۃ ٍَوال َّق َِل یَ ِ
الطال ِت ا َ ِو َّ أجی ُل ا ِٰلی َو ْقت ْال َم ْو ِ َوت َأ ِو ْیلُہ‘ا َ ْن یُ ْذک ََر الت َّ ِ
ُ lxx
ت ِل یُب ِْطل ِکر الثابِ ِِذ ْک ٍرفَذ ُ
موت یا طالق کے وقت تک مہر کی تأجیل مدت جہالت اجل کی وجہ سے درست نہیں ہونی چاہیے لیکن
عرفاثابت ہونے کی وجہ سے یہ صحیح ہے۔
پس اگر یہ عورتیں تمہیں اپنی خوشی سے مہر کا کچھ حصہ معاف کریں تو اس کو لذت ھاصل کرتے ہوئے
خوشگوار سمجھتے ہوئے کھاؤ
حواشی
iلسان العرب ،محمد بن مکرم بن منظور اِلفریقی ۱۸۴: ۵دار صادر بیروت سن ندارد
القاموس،مرتضی زبیدی ۱۴:۱۵۶دارالہدایہ بیروت سن ندارد
ٰ iiتاج العروس من جواہر
الکبری ،امام احمد بن حسین ،ابوبکر بیہقی کتاب اِلجارۃ []۲۸باب اکسب اِلماء
ٰ iiiسنن
[]۱۱حدیث نمبر]۱۲۰۲۱[:مجلس دائرۃ المعارف النظامیہ حیدر آباد،ہند سن ۱۳۴۴ھ ۔یہ
روایت صحیح ہے۔
ivردالمختار ابن عابدین شامی ،کتاب النکاح باب المہر ۳:۱۰۰ایچ ایم سعید کمپنی کراچی سن
ندارد
vمحمود بن عبدہللا الحسینی،شہاب الدین اآللوسی بغدادی
[۱۲۱۷۔۱۲۷۰ھ236۱۸۰۲۔۱۸۷۵ء] مفسر ،محدث ،ادیب اورفقیہ ہوگذرے ہیں۔ سلفی
العقائد تھے ۔کئی ممالک کے سفر کیے ۔مفید تصنیفی خدمات انجام دیے جن میں تفسیر روح
المعانی بہت مشہور ہے ۔[اِلعالم[۷:۱۷۶
viروح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی ،عالمہ سید محمود
آلوسی ؒ،۳:۱۹۸مکتبہ امدادیہ ملتان پاکستان سن ندارد
viiسورۃا لنساء۴:۴
viiiلسان العرب۱۰:۱۹۳
ixتاج العروس من جواہر القاموس۲۶:۱۲
xعلی بن سلطان محمد ،نور الدین مال ہروی القاری حنفی فقیہ ہرات افغانستان میں پیدا ہوئے
اور مکہ مکرمہ میں سکونت اختیا ر کی اور وہیں ]۱۰۱۴ھ 236۱۶۰۶ء]کووفات پائی ۔آپ
مشکوۃ المصابیح کی شرح
ٰ نے فن تفسیر ،حدیث ،فقہ ،سیرت میں وقیع کتابیں لکھیں جن میں
مرقاۃ المفاتیح بھی شامل ہے ۔[اِلعالم،خیرالدین زرکلی۵:۱۲دارالعلم للمالیین بیروت سن
طباعت ۲۰۰۲ء[
xiمرقاۃ الفاتیح مال علی القاری 27 :7مکتبہ حقانیہ پشاور سن ندارد
xiiحسین بن محمد بن مفضل ابوالقاسم اصفہانی لغت اور ادب کے امام تھے۔اصفہان
[ایران]میں پیدا ہوئے ۔تاریخ وِلدت معلوم نہیں ۔۵۰۲ھ236۱۱۰۸ء کو وفات پاگئے۔ [
روضات الجنات،محمد باقر موسوی اصفہانی ۲۴۹بدون نام طابع سن طباعت ۱۳۴۷ھ،
اِلعالم[۲:۲۵۵
اصفہانی ۱:۷۹۵دارالعلم بیروت۱۴۱۲ھؒ xiiiالمفردات فی غریب القرآن ،امام راغب
xivروح المعانی۳:۱۹۸
xvمصدر سابق
xviمصدر سابق
xviiسور النساء۴:۲۵
xviiiمحمد بن احمد بن ابی بکر اِلنصاری الخزرجی اِلندلسی ،ابوعبدہللا القرطبی
[المتوفی۶۷۱ھ236۱۲۷۳ء]کبار مفسرین میں سے ہیں ۔اپنے زمانے کے ایک زاہد اور ٰ
متورع عالم ہوگذرے ہیں ۔قرطبہ میں پیداہوئے اور مشرق کی جانب ہجرت کی اور مصر
میں وفات پاگئے ۔آپ کی تصنیفات میں الجامع ِلحکام القرآن ،تذکرہ باحوال الموتی واآلخرۃ
ہیں ۔[ شذرات الذہب فی اخبار من ذہب عبد الحی اور التذکارفی افضل اِلذکار زیادہ مشہور ٍ
بن احمدالعکری الحنبلی ۵:۳۳۵دارابن کثیر بیروت دمشق۱۴۰۶ء اِلعالم [۵:۳۲۲
xixالجامع ِلحکام القرآن [تفسیر القرطبی ]ابوعبدہللا محمد بن عبدہللا بن ابی بکر
القرطبی۵:۱۳۶دارالکتب المصریہ القاہرہ ۱۳۸۴ھ
xxسورۃ النور۲۴:۳۲
xxiتفسیر القرطبی۱۲:۲۴۳
xxiiسورۃ النساء۴:۲۴
xxiiiتفسیر روح المعانی ۳:۳
xxivسورۃ البقرۃ۲:۲۳۶
xxvمفردات امام راغب۱:۶۳۰
xxviسورۃا ِلحزاب۳۳:۵۰
xxviiتفسیر مدارک التنزیل[بحاشیہ تفسیر خازن ] ،عالمہ نسفی۳:۱۳۶
xxviiiمحمد بن احمد بن سہل ،ابوبکر ،شمس اِلئمہ سرخس [خراسان ۔ایران ]میں پیدا ہوئے
قاضی اور فقہ حنفی کے مجتہد عالم تھے۔فقہ وقانون میں آپ کی مشہور تصنیف ’المبسوط
‘‘ بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔آپ نے امام محمد ؒ کی کتب کی شروح لکھیں۔آپ کو حق گوئی
کی وجہ سے آپ کو بادشاہ وقت نے قید میں ڈال دیا۔یہ عظیم محقق[ ۴۸۳ھ236۱۰۹۰ء ]کو
وفات پاگئے۔[ الجواہر المضیۃ فی طبقات الحنفیہ عبدالقادر بن ابی الوفا ء محمد القرشی
۲:۲۸میر محمد کتب خانہ کراچی سن طباعت ندارد ؛اِلعالم [۵:۳۱۵
xxixاصول السرخسی ،عالمہ شمس اِلئمہ السرخسی ،۱:۱۳۰دارالکتب العلمیہ بیروت
۱۴۱۴ھ
xxxصحیح البخاری ،محمد بن اسماعیل البخاری،کتاب النکاح [ ]۷۱با ب السلطان ولی بقول
النبیﷺ[]۴۱حدیث نمبر۵۱۳۵۳
xxxiنفس مصدرکتاب النکاح []۷۱باب الشروط فی النکاح []۵۳حدیث نمبر۵۱۵۱
موسی ،بدرالدین العینی الحنفی
ٰ xxxiiمحمود بن احمد بن
[۷۶۲۔۸۵۵ھ236۱۳۶۱۔۱۴۵۱ء]مؤرخ ،عالمہ ،حنفی فقیہ اور کبار محدثین میں سے
تھے۔اپ کا وطن اصلی حلب [عینتاب]ہے اسی وجہ سے عینی کہالتے ہیں ۔مصر ،دمشق
اور القدس میں بھی رہے ۔قاہرہ میں منصب قضاء اور احتساب پر فائز ہوئے ۔اس کے ساتھ
تصنیفی اور تدریسی خدمات بھی انجام دیے۔قاہرہ میں وفات پاگئے ۔عمدۃ القاری ،معانی
اِلخیار فی رجال اآلثار ،مصطلح الحدیث ورجالہ،البنایہ شرح الہدایہ وغیرہ جیسی سینکڑوں
مفید تصانیف لکھیں ۔[ الضو الالمع،عالمہ سخاوی ۵:۶۲ت۵۳۵:دارالعلم بیروت سن ندارد
اِلعالم ۷؛[۱۶۳
xxxiiiعمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ،عالمہ بدرالدین العینی ۲۰:۴۶۶
xxxivسیدہ عائشہ رضی ہللا عنہا بنت سیدنا ابو بکرصدیق ث،ام المؤمنین ۹،قبل ہجری
236۶۱۳ء کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں ۔رسول ہللا اکی محبوب رفیقۂ حیات تھیں ۔علم
وتقوی اورجود وسخامیں اپنی مثال آپ تھیں ۔۲ہجری میں رسول ہللا اکی عقد ٰ وفضل ،ورع
میں آئیں۔اکثر صحابۂ کرام ثآپ سے مسائل پوچھا کرتے تھے ۔۵۸ھ236۶۷۸ء کو مدینہ
منورہ میں وفات پاگئیں ۔آپ سے ۲۲۱۰اَحادیث مروی ہیں۔(اِلستیعاب فی معرفۃ اِلصحاب،
عالمہ حافظ ابن عبدالبر المالکی ۲:۱۰۸داراحیاء التراث العربی ۱۳۲۸؛اِلعالم )۳:۲۴۰
xxxvصحیح مسلم ،امام مسلم بن حجاج القشیری ،کتاب النکاح []۱۶باب الصداق [] ۱۳حدیث
۷۸۔[] ۱۴۲۶
xxxviالمغنی ،عبدہللا بن احمد ابن القدامۃالمقدسی ،ابومحمد۸:۳،دارالفکربیروت طباعت سن
۱۴۰۵ھ]
xxxviiسورہ النساء ۴:۲۴
xxxviiiاحمد بن علی الرازی ،ابوبکر الجصاص [۳۰۵۔۳۷۰ھ236۹۱۷۔۹۸۰ء]مشہور فقیہ
اورحنفی مسلک کے مجتہد عالم تھے۔ چونے کاکام کرتے تھے اسی وجہ سے جصاص
کہالتے ہیں ۔بغداد میں سکونت اختیار کی اور وہیں وفات پاگئے ۔آپ نے مفید کتابیں تصنیف
کیں جن میں احکام القرآن بہت مشہور ہے ۔[الجواہر المضیۃ فی طبقات الحنفیہ
۲:۳۶۶؛اعالم ]۱:۱۷۱
xxxixاحکام القرآن ،امام ابو بکر جصاص۳:۸۶داراحیاء التراث العربی بیروت سن طباعت
۱۴۰۵ھ
xlمحمد بن عبدہللا بن محمد المعافری اِلشبیلی المالکی ،ابوبکر ابن العربی
[۴۶۸۔۴۵۳ھ236۱۰۷۶۔۱۱۴۸ء]قاضی اور حافظ الحدیث تھے۔علوم دین میں درجہ اجتہاد
پر قائم تھے ۔حدیث ،فقہ ،تفسیر ادب اور تاریخ ہرفن میں کتابیں لکھیں ۔[سیر اعالم
النبالء۱۹:۱۳۰ت۶۸:حافظ شمس الدین ذہبی ،مؤسسہ الرسالۃ بیروت سن ندارد؛ اِلعالم
]۶:۲۳۰
xliاحکام القرآن ،ابن العربی ۲:۲۸۳داراصداربیروت سن ندارد
xliiابوبکر بن مسعود بن احمد الکاسانی ملک العلماء عالء الدین جلیل القدرحنفی عالم حلب(
دمشق) میں پیدا ہوئے تاریخ پیدائش معلوم نہیں اپنے زمانے کے بڑے فقہیہ تھے ان کی
کتاب بدائع الصنائع فقہ حنفی کی بنیادی مصدر سمجھی جاتی ہے ۔
]587ھ بمطابق 1191ء ] کو وفات پاگئے۔]سیر اعالم النبالء 4:305اعالم ]70: 2
xliiiبدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع ،امام ابوبکر کاسانی 264 :2دارالکتب العلمیہ بیروت
1986ء
xlivتفسیر مدارک التنزیل و حقائق التاویل ،امام نسفی 348 :1دارالکلم الطیب بیروت 1988ء
xlvسورۃ النساء 24 :4
xlviاحکام القرآن ابن العربی 499 :1
xlviiسورۃ البقرۃ 236 :2
xlviiiبدائع الصنائع274 :2
xlixعبد ہللا بن مسعود بن غافل بن حبیب ہذلی ابو عبد الرحمن اکابر صحابہ اور سابقین اولین
میں سے ہیں ۔رسول کریم ؑ کے خادم خاص تھے کوفہ میں تفسیر کا مدرسہ قائم کیا ،آیات
قرآنیہ کے اسباب نزول سے خوب واقف تھے ۔سیدنا عثمان کے دور خالفت میں کوفہ سے
مدینہ آگئے (32ھ بمطابق 653ء )کو تقریبا ساٹھ سال کی عمر میں وفات پائی۔( غایۃ النہایہ
فی طبقات القراء ابن الجزری 458 :1مکتبۃ الخانجی مصر 1351ھ اِلعالم )277 :4
lسنن ابی داؤد ،امام سلیمان بن اشعث السجستانی کتاب النکاح ( )6باب فیمن تزوج ولم یسم
صداقا( )31حدیث 2116:
یہ حدیث صحیح ہے
الکبری ،ابن سحنون کتاب النکاح ،فصل فی النکاح بغیر ہبۃ 192 :2
ٰ liالمدونۃ
liiاِلم ،امام شافعی ؒ 58 :5دارالمعرفۃ بیروت سن ندارد
liiiالمغنی 4 :8
livالمحلی باآلثار ابن حزم 516 :9دارالفکر بیروت سن ندارد
lvسورۃ النساء 20 :4
lviمفردات امام راغب 677 :1
lviiعمر فاروق رضی ہللا عنہ بن خطاب قرشی عدوی ابوحفص مکہ مکرمہ میں 40قبل
ہجری پیدا ہوئے سابقین اولین اور خلفائے راشدین اور عشرہ مبشرہ میں ہیں ۔نہایت شجاع
اور اسالم پر مر مٹنے والے تھے ان کا دور خالفت اسالم کی اشاعت عدل وانصاف اور
عوام کی رفاہ میں ضرب المثل تھی آپ کی رائے کے موافق کئی آیات نازل ہوئیں ۔ 23ھ
کو وفات پائی ۔(تہذیب الکمال حافظ مزی 317 :21مؤسسۃ الرسالۃ بیروت 1413ھ اِلعالم
)45 :5
lviiiسنن النسائی ،احمد بن شعیب النسائی کتاب النکاح ()25باب التزویج علی سور من القرآن"
القسط فی اِلصدقۃ "حدیث نمبر 3349:مجمع الزوائد علی ابن ابی بکر بن سلیمان الہیثمی :4
284مکتبۃ القدسی القاہرۃ سن 1994
lixنفس المصدر
lxسنن ابی داؤد کتاب النکاح ( )6باب فیمن تزوج ولم یسم صداقا()31حدیث نمبر 2117:
lxiصحیح البخاری کتاب النکاح [ ]۷۱با ب السلطان ولی بقول النبیﷺ[]۴۱حدیث 5135:
الکبری کتاب النکاح 223 :2
ٰ lxiiالمدونۃ
lxiiiاِلم کتاب النکاح باب المہر 63 :5المغنی کتاب الصداق 99 :10
lxivسورۃ النساء 24 :4
lxvاصول الشاشی ،عالمہ نظام الدین الشاشی ص 33دارالکتاب العربی بیروت سن ندارد
lxviالمحلی کتاب النکاح 92، 91 :9
فتوی ھندیہ کتاب النکاح 132 :4
ٰ lxviiالبزازیہ علی ھامش
lxviiiالہندیہ کتاب النکاح باب السابع 318 :1
lxixالدرالمختار ابن عابدین شامی کتاب النکاح باب المہر 144 :3ایچ ایم سعید کمپنی کراچی
سن ندارد
lxxالہندیہ 318 :1
lxxiالدرالمختار 102 :3الہندیہ 303 :1
lxxiiسورۃ النساء 20 :4
lxxiiiہدایہ امام برہان الدین المرغینانی کتاب النکاح باب المہر 200 :2داراحیاء التراث بیروت
سن ندارد
lxxivمصدر سابق
lxxvہدایہ ، 199 :1فتح القدیر کمال الدین ابن الہمام 322 :3داراحیاء التراث العربی بیروت سن
ندارد
lxxviسورۃ البقرۃ237 :2
lxxviiمصدر سابق
lxxviiiسورۃ النساء۴:۲۴